اصطلاحات اردو ادب

: افسانہ
افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جسے ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکے۔
     : ناول
ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں انوکھا،نرالا اور عجب۔
 افسانہ اورناول میں کیا فرق ہے؟
افسانہ مختصر ہوتا ہے۔
افسانہ ایک خیال ایک واقعہ اور ایک احساس کو پیش کرتا ہے۔افسانہ کا ایک ہی پلاٹ ہوتا ہے۔-
۔اس کا انجام کچھ ایسا ہوتا ہے کہ قاری آخر میں کچھ تشنگی 
 سی محسوس کرنے لگتا ہے۔
  افسانہ صرف ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکتاہے۔۔
زندگی کی رنگا رنگ اور ہمہ گیر وسعتوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ 
ایک پلاٹ کے علاوہ کئی ضمنی پلاٹ ہو سکتے ہیں۔
ناول کا انجام بالکل واضح ہوتا ہے اور قاری کا ذہن تکمیل کے احساس سے لبریز ہوتا ہے۔
۔ایک نشست میں نہیں پڑھا جا سکتا بلکہ اس کے خاتمے کے لیے کئی دن لگ سکتے ہیں۔
رومانویت کیا ہے؟
 رومانویت اردو ادب کی بیسیوں اصطلاحات میں سےایک ہے جس کی کوئی مستند اور مکمل تعریف دشوار ہے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول ـ’’ ایف۔ایل۔ لوکس نے اپنی معروف تالیف C IDEAL DECLINE AND FALL OF ROMANTIمیں رومانویت کی ۱۱۳۶۹ تعریفیں گنوائی ہیں ‘‘(۱) یہ کثرت تعبیر دراصل رومانویت کی موہوم شکل کی طرف اشارہ ہے۔ڈاکٹر انور سدید کے خیال میں ’’ رومانویت کا تعلق چونکہ شعور کی بجائے لاشعور سے ہے  اس لیے یہ بے حد پیچیدہ اور نفسیاتی کیفیت ہے‘‘(۲)یہی وجہ ہے کہ رومانویت کی مکمل اور جامع تعریف آسان نہیں۔

لاطینی میں رومانس کا لفظ مقامی اور غیر ترقی یافتہ بولیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں یہ لفظ ان زبانوں کے ادب کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ انسائیکلو پیڈیا برطانیکا میں رومانس کے ضمن میں لکھا ہے

 Originally a composition written in romance languages i.e. in one of the phases on which the Latin tongue entered after or during the dark ages (3)

لیکن رومانس کا لفظا ان معنوں میں شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے۔سوائے سپین کے جہاں اب بھی یہ لفظ بعض اوقات اپنے پرانے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا نے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ

 Romance has long since lost its original signification in every country except Spain, where it is still occasionally used in speaking of vernacular as it was in the middle ages when Latin was the language of the lettered clanes and of documents and writing of all kinds (40)

لہٰذا رومانویت کی تعریف میں اگرچہ رومانس کا لفظ اپنی پرانی معنویت کو استعمال میں لاتا ہے مگر اب اس کے معانی میں بڑی گیرائی اور وسعت پیدا ہو گئی ہے۔اور اب یہ ایک ایسی تحریک کا نام ہے جس نے بہت سی قوموں کے علم و ادب میں فکر و احساس کی روشنی منتقل کی ہے۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا میں (Theodore Watts Dunton) نے اسے شاعر ی میں فن اور حیرت کے جوہر کی نشاۃ ثانیہ کہا (۵)

رومانویت کی تعریف کرتے ہوئے مختلف اہل الرائے اصحاب نے اس کے مختلف عناصر سے بحث کی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب ’’ ارسطو سے ایلیٹ تک ‘‘ میں آزادی، جذبات اور عوام کو رومانویت کے بنیادی خد و خال میں شمار کیا ہے۔(۶)ڈاکٹر انور سدید کے مطابق ـ’’ یوٹوپیا کی تخلیق اور عینیت پسندی رومانویت کے اہم رجحان شمار ہوتے ہیں ‘‘(۷) ڈاکٹر سلیم اختر نے ارونگ بیسٹ کے حوالے سے لکھا  nacular as it was in the middllہے کہ’’ عجیب و غریب، عام ڈگر سے ہٹی، شدید، اعلیٰ تر اور انفرادیت جیسے خواص کی حامل تحریر رومانی ہے جبکہ اس کے بر عکس ہر وہ تحریر کلاسیکی ہو گی جو منفرد نہ ہو بلکہ ایک عمومی گروہ کی نیابت کرتی ہو‘‘ (  ۸) ان کے خیال میں موضوع کے حوالے سے رومانوی تحریک کی انفرادیت یہ ہے کہ’’ ادیب موضوع کو تخلیق کے      بطن سے دریافت کرتا ہے۔چنانچہ رومانوی ادبا کے لیے کوئی موضوع شجر ممنوعہ نہیں۔اساسی اہمیت تخلیقی لمس کو حاصل ہے  اور یہی موضوع کو تازگی اور توانائی عطا کرتا ہے‘‘(۹)ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی انفرادیت رومانویت کے ساتھ پہلی شرط قرار دی (۱۰)

مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں رومانویت کے کچھ کچھ خدوخال ہمارے سامنے مرتب ہوتے ہیں۔ رومانوی تحریک کا مطلع اول روسو کی منفرد آواز کو قرار دیا گیا  جب اس نے کہا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو وہ پا بہ زنجیر ہے۔(۱۱)لیکن ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول ’’ ورڈز ورتھ اور کولرج کی قد آور شخصیات نے رومانویت کو بطور شاعرانہ مسلک اور تصور نقد مقبول بنا کر بطور تنقید رویہ کے قدیم اور مروج مفہوم سے جدا گانہ حیثیت سے متعارف کرایا۔(۱۲)

ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں :

’’ورڈز ورتھ کی تمہید اس اعلان سے شروع ہوتی ہے کہ شاعری بادشاہوں اور امرا و نوابین کے لیے نہیں۔اب وہ دور ختم ہو چکا ہے۔۔۔ ورڈزورتھ نے لکھا کہ اس کا مقصد عام زندگی سے موضوعات حاصل کر کے انہیں شاعری کے روپ میں پیش کرنا ہے۔وہ دیہاتیوں کو معیار بناتا ہے۔ان کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔اور ان کی زبان کو شاعری کی زبان بنانا چاہتا ہے۔‘‘(۱۳)

ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول شاعری کے اجتماعی افادیت کے لیے ورڈز ورتھ نے اصول و قواعد بھی قائم کیے۔لکھتے ہیں :

’’   شاعری صرف انسانی نیچر کے لیے حفاظتی قلعہ ہی نہیں بلکہ شاعر علم اور جذبات کی مشترکہ امداد سے انسانی اجتماع کی وسیع دنیا کو باہم متحد بھی رکھتا ہے۔۔۔۔۔اس اتحاد کا وسیلہ وہی انسان اور فطرت کی قرابت داری اور باہمی محبت ہے ‘‘   (۱۴)

کولرج نے ورڈزورتھ کے عام خیالات سے اتفاق کیا لیکن ان کی توضیح سے اختلاف کیا۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی کولرج نے بتایا کہ ’’دیہاتیوں کی زبان کے بارے میں جو کچھ ورڈزورتھ کہتا ہے غلط ہے۔۔۔بہترین زبان صرف ان کی زبان کو صاف کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘(۱۵)کولرج کے نزدیک ’’ اگر شاعر ی کو جسم قرار دیا جائے تو سلیقے کی حس good sense کو اس کا بدن، fancyکو اس کا لباس اور آرائش، اس کی حرکت و روانی کو اس کی زندگی  اور تخیل کو اس کی روح قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘(۱۶)کولرج کی تخیل کی بحث بہت الجھی ہوئی ہے۔شاعری کو وہ تخیل ہی کا کرشمہ سمجھتا ہے۔

اردو میں رومانوی تنقید کی صورت حال کا جائزہ لینے سے پیشتر ڈاکٹر سلیم اختر کی  کتاب ’’ تنقیدی دبستان ‘‘ سے ایک اقتباس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ لکھتے ہیں :

’’اردو میں رومانی تحریک کی بے بضاعتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے رومانوی تنقید پر  ۲۴  صفحات کا مقالہ مشمولہ تنقید اور اصول تنقید، میں اردو کے ایک بھی رومانی نقاد کا نام درج نہیں کیا‘‘(۱۷)

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کی تنقیدی روایت بہت دیر میں حالیؔ کی مقدمہ شعر و شاعری سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مشاعروں کی واہ واہ اور تذکرہ نگاری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ حالانکہ اس قسم کے دعوے بھی کیے گئے کہ

’’ اردو ادب کو جس سماج نے پیدا کیا  وہ تہذیب یافتہ اور نفاست پسند تھا اس کا نظام اخلاق منظم اور معیار انسانیت واضح تھا۔ایسے افراد کا تنقیدی شعور بھی بیدار ہوتا ہے۔‘‘(۱۸)

تاہم حقیقت یہی ہے کہ اردو میں جدید تنقید بہت دیر بعد شروع ہوئی۔اس وقت تک مغرب کے تنقیدی شعور کی عمر صدہا برسوں تک پہنچ چکی تھی۔بہر حال حالیؔ نے  اردو تنقید میں سب سے پہلے اصول اور معیار مقرر  کیے۔اصول اور لگے بندھے معیار سے گریز رومانویت کا امتیاز ہے۔ تنقید میں حالی کے معیارات کے خلا ف سب سے پہلا رد عمل مہدی افادی کی طرف سے ہوا۔

بقول ڈاکٹر انور سدید:

’’اس کے خلاف اولین رد عمل رومانوی تحریک کے ہراول کے ادیب مہد ی افادی کی طرف سے ہوا۔ مہدی افادی نے تنقیدی عمل سے اس مسرت کو تلاش کرنے کی سعی کی  جسے ادبا نے  اپنے ادب پاروں میں چھپا رکھا تھا۔اور فیصلے میں انشا پردازی کو یوں استعمال کیا کہ ان کا فرمایا ہوا اب ضرب المثل کی طرح مشہور ہو گیا ہے۔‘‘(۹!)

ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی کتاب ’’اشارات تنقید ‘‘ میں مہدی افادی کے بارے میں رقم طراز ہیں :

’’مہدی افادی بھی ایک رومانوی نقاد ہیں مگر ان کا انداز بجنوری سے مختلف ہے۔ان کے  مضامین ’’افادات‘‘ میں مبالغہ کی وہ شدت نہیں جس اکا اظہار مقدمہ بجنوری میں ہوا ہے ‘‘(۲۰)

ڈاکٹر انور سدید کے خیال میں

’’  مہدی افادی اپنی تنقیدی رائے کے لیے وجدان کو ہی راہنما بناتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ذوقی کیفیت نے ایک آزاد فضا تخلیق کی اور قاری کے دل کو مسخر کر لیا۔  مہدی اردو تنقید میں آزادی اظہار کی اولین رومانی آواز ہے  ‘‘(۲۱)

ڈاکٹر سید عبداللہ کے مہدی افادی کے تنقیدی رویوں کو ’’اشارات تنقید ‘‘ میں ترتیب وار  اس طرح بیان کیا ہے :

’’۱۔مہدی افادی میں مبالغہ نہ سہی مگر ہیجان انگیزی کی صورتیں موجود ہیں

۲۔تنقید میں ان کا ادبی اسلوب نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

۳۔افادات مہدی میں تخلیقی ادب کی  شان پائی جاتی ہے۔‘‘(۲۲)

رومانوی تنقید کا ایک اور معتبر نام عبدالرحمن بجنوری ہیں۔بجنوری کا تنقیدی کارنامہ محاسن کلام غالب ہے جو دراصل غالب کے دیوان نسخہ حمیدیہ کا مقدمہ ہے۔ڈاکٹر انور سدید انہیں رومانوی تنقید کا ایک روشن زاویہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’انہوں نے غالب کو والہانہ شیفتگی سے دریافت کرنے کی کوشش کی بجنوری ایک فطری رومانی کی طرح ان سر چشموں کو تلاش کرتے ہیں جن سے خود تخلیق کار کا ذوق سیراب ہوا تھا۔‘‘ (۲۳)

ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک

’’  بجنوری کے یہاں مبالغہ بہت ہے۔  اور نتیجہ میں عجلت کے آثار بھی ملتے ہیں۔پھر بھی بجنوری کا یہ مقدمہ ایک اہم تحریر ہے۔ بجنوری کا انداز تاثراتی رومانی ہے۔  وہ ایسے زمانے کے مصنف ہیں جس میں شدت جذبات کے تحت افراط اور مبالغہ کا رجحان عام تھا۔ مغرب سے مرعوبیت کے باوجود مغرب کے مقابلے میں سر کشیدہ چلنے کا جذبہ یا میلان بجنوری کا خاص وصف ہے‘‘  (۲۴)

بقول ڈاکٹر انور سدید :

’’بجنوری اردو کے اہم ترین رومانی نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی آواز بر صغیر کے طول و عرض میں سنی گئی ۔ اور ان کا وجدانی جملہ کہ’  ہندوستان کی الہامی کتابیں  دو ہیں  :  ایک وید مقدس  اور دوسری دیوان غالب‘ شائع ہوتے ہی زبان زد عام ہو گیا اور اس نے بجنوری کو بقائے دوام عطا کر دی ‘‘  (۲۵)

رومانوی تنقید کا تیسرا اہم نام امداد امام اثرؔ ہیں۔امدا د امام اثرؔ کی کتاب کا نام  ’’کاشف الحقائق‘‘ ہے۔اس کتاب کا دائرہ بحث بہت وسیع ہے اور اس میں اہم ترین اقوام عالم کی شاعری کے علاوہ مختلف اصناف کی گفتگو کی ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک

’’امداد امام اثرؔ مغربی اور مشرقی نقطہ نظر میں پیوند قائم کرنے والے نقادوں میں ہیں ‘‘ (۲۶)

ان کا کہنا ہے کہ

’’  ا ثرؔ کے نزدیک شاعری ایک فطری چیز ہے اور اس کی تخلیق سلسلہ الہام سے تعلق رکھتی ہے  ‘‘  (۲۷)

ڈاکٹر سید عبداللہ مزید رقم طراز ہیں :

’’اثرؔ نیچر پر زور دینے کے باوجود اور شاعری کو الہام کہنے کے باوجود اس کے عملی فائدے اور اجتماعی پہلو کا اثبات کرتے ہیں۔‘‘ (۲۸)

رومانوی تنقید کے سلسلے میں لیے جانے وا لا ایک اہم نام آل احمد سرورؔ کا بھی ہے لیکن کلیم الدین احمد نے آل احمد سرورؔ پر اس لیے اعتراض کیا ہے کہ ان کی کوئی مستقل کتاب نہیں ہے۔(۲۹)لیکن ڈاکٹر سید عبداللہ سرورؔ کی نثر کے دل دادہ ہیں۔ان کے خیال میں ’’ سرورؔ کی تنقید بڑی مزے دار تنقید ہے اور اسے تخلیقی ادب میں شمار کیا جا سکتا ہے مگر کلیم نے اس پر بے جا تنقیص کی ہے ‘‘ (۳۰)ڈاکٹر سلیم اختر نے مذکورہ بالا تمام نقادوں کی رومانویت کو بیک جنبش قلم مشکوک قرار دے دیا۔ اپنی کتاب’’ تنقیدی دبستان‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’  اس ضمن میں  مہدی افادی ، امداد امام اثرؔ ، عبدالرحمن بجنوری  اور بعض اوقات آل احمد سرورؔ کے اسما گنوائے جاتے ہیں حالانکہ ان میں سے ایک بھی ایسا نقاد نہیں جس کا رومانویت کے قریب سے بھی گذر ہوا ہو۔

 امدا د امام اثرؔ کی استثنائی مثال سے قطع نظر باقی تینوں ناقدین کے اسلوب میں کچھ شاعرانہ عناصر ملتے ہیں جبکہ  بجنوری کے ہاں جذباتیت بھی ملتی ہے۔۔۔ مگر اسلوب میں شاعرانہ عناصر اور انداز نقد میں جذباتیت  رومانیت تو نہیں۔‘‘ (۳۱)

مجنوںؔ  گورکھپوری اور فراقؔ گورکھپوری کو بھی رومانی نقادوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر محمد حسن نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی رومانی تحریک ‘‘میں  بجنوری کے ساتھ مجنوںؔ  گورکھپوری کو رومانی تحریک کا نمائندہ قرار دیا ہے۔(۳۲)ڈاکٹر عبدالسلام نے مجنوںؔ  کو  اردو کا پہلا جمالیاتی نقاد قرار دیا ہے۔(۳۳)سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ’’ مجنوںؔ  کی تنقید نے اردو تنقید پر گہر ا اثر ڈالا‘‘ (۳۴)اس سلسلے میں انہوں نے مجنوںؔ  کے ساتھ فراقؔ کا نام بھی لکھا ہے۔مگر ڈاکٹر سلیم اختر انہیں تاثراتی نقاد تسلیم کرتے ہیں۔ڈاکٹر انور سدید نے اپنی کتاب ’’ اردو ادب کی تحریکیں ‘‘میں بطور رومانی نقاد مجنوںؔ  اور فراقؔ کا ذکر تک نہیں کیا۔جبکہ عبدالماجد دریا آبادی کو رومانی نقاد تسلیم کیا ہے۔

اردو میں رومانوی تنقید کا ایک مسلم نام نیاز فتح پوری کا ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول ’’ اردو تنقید میں نیاز کی حیثیت منفرد ہے اور اس کی انفرادیت کی بنیاد لفظیاتی تنقید ہے‘‘(۳۵) ڈاکٹر انور سدید کے بقول ’’نیاز فتح پوری کی تنقید جذبے کی صداقت اور شعر کی خشت بندی میں امتیاز پیدا کرنے کی کوشش ہے۔اور وہ اس کے لیے رومانوی نقاد کی بنیادی آزادی سے دستبردار نہیں ہوتے۔‘‘ (۳۶)ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک ’’ نیاز کا انداز تنقید رومانی تاثراتی ہے۔ اور اس پر بلاغت کے دبستان کا بھی اثر ہے۔‘‘ (۳۷) ڈاکٹر سلیم اختر انہیں بھی رومانی نقاد تسلیم نہیں کرتے تا ہم فرماتے ہیں :

’’نیاز فتح پوری رومانی نقاد ہو سکتے تھے کہ وہ اردو میں رومانیت کی تحریک ( اگر اسے واقعی تحریک تسلیم کر لیا جائے ) میں اہم مقام کے حامل ہیں مگر وہ جمالیات کے ذریعہ تاثراتی انداز نقد کی جانب متوجہ رہے‘‘(  ۳۸)

ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انہیں اپنی کتاب میں بطور شاعر تو موضوع بنایا ہے مگر بطور نقاد ان پر کچھ نہیں لکھا۔حالانکہ نگار کے نمبروں اور نگار میں ان کے مضامین کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے۔ حوالے کے لیے ان کی کتاب ’’دیدہ و شنیدہ‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔تاہم نگار کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ’’ اردو ادب میں آزادی خیال، کشادہ نظری، بے لاگ تنقید اور بے باک اظہار خیال کو فروغ دینے میں مدد کی ‘‘(۳۹)

ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ’’ وہ رومانی تحریک کے ممتاز رکن ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے زمانے کے ایک بڑے عقل پسند ادیب بھی ہیں۔‘‘ (۴۰)انور سدید کے الفاظ میں ’’ انہوں نے تنقید کے لیے وہی اسلوب اختیار کیا جو ان کے افسانوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر پر جو الہام شعر کی صورت میں نازل ہو ا تھا اب انکشاف شعر کی ضمن میں نیاز پر اتر رہا ہے ‘‘ (۴۱)

گذشتہ صفحات میں اردو کے جن رومانی نقادوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے شاید کوئی بھی پورے معنی میں رومانوی نقاد نہیں۔ اردو میں رومانوی تنقید تاثر کی پیدا وار ہے۔ اور ایک طرح کے تعصب کو بھی تاثر ہی کا نام دے دیا گیا ہے۔ ہم جدید عہد میں جدید اصطلاحات کے ساتھ اپنی پرانی تنقید کے ڈگر پر ہی چل رہے ہیں اور کسی نقطہ نظر یا اصول کی بجائے ذاتی رائے کو ہی تنقید کا اصول مانتے چلے آرہے ہیں۔آزادی اظہار کا یہ پہلو یقیناً رومانی ہے مگر جیسا کہ پہلے صفحات میں ذکر کیا گیا کہ رومانویت کثیر الابعاد اور مختلف مفاہیم پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن رومانی نقادوں کا ذکر کیا گیا  ایک نقاد انہیں رومانی تسلیم کرتا ہے تو دوسرا تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ اردو میں جس کسی کو بھی کسی بھی بعد کی بنیاد پر رومانی نقاد کہا گیا اس کا ذکر کر دیا جائے۔ اور اگر انگریزی اردو تنقید کا موازنہ رومانی نقادوں کے حوالے سے کیا جائے تو جس وقت کولرج نے  قوت تخیل پر اپنا مضمون قلم بند کیا (۱۸۸۷) ہم اس وقت تک حالی کی خشک اور سپاٹ تنقید سے بھی آگاہ نہیں ہوئے تھے
بہرحال اس تحریک کا انجام بخیر ہوا اور بقول ڈاکٹر سلیم اختر
’’ اب تو عالمی سطح پر نہ رومانویت کی ادبی تحریک زندہ ہے اور نہ رومانی ناقدین نظر آتے ہیں ‘‘(۴۲)
اور ہمیں ان کے خیال سے مکمل اتفاق ہے۔
(پروفیسر ڈاکٹر  طاہرعباس صاحب)

Comments

Popular posts from this blog

رسید نویسی۔Receipt writing

*پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں*